کسی شخص نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے سامنے بُلند آواز سے”اَستغفر اللّٰہ”کہا تو آپ رض اللہ تعالی عنہ نے اُس سے فرمایا” کچھ معلوم بھی ہے کہ استغفار کیا ہے؟ ‘استغفار’ “بُلند منزلت لوگوں” کا مقام ہے اور یہ ایک ایسا لفظ ہے جو چھ باتوں پر حاوی ہے۔ ا(اوّل ) یہ کہ جو ہو چکا اُس پر نادم ہو۔ (دوم) یہ کہ ہمیشہ کے لیے اُس کے مرتکب نہ ہونے کا پکّا ارادہ کر چُکا ہو۔ (سوئم) یہ کہ مخلوق کے حقوق ادا کرنا یہاں تک کہ اللّٰہ کے حضور میں اِس اِس حالت میں پہنچو کہ تمہارا دامن پاک و صاف ہو اور تم پر کوئی مواخذہ نہ ہو۔ (چہارم) یہ کہ جو فرائض تم پر عائد کئے ہوئے تھے اور تم نے انہیں ضائع کر دیا تھا۔ اُنہیں اب پورے طور پر بجا لاؤ۔(پنجم) یہ کہ جو گوشت حرام سے نشوونما پاتا رہا ہے اُس کو غم و اندوہ سے پگھلاؤ یہاں تک کے کھال کو ہڈیوں سے ملا دو کہ پھر سے ان دونوں کے درمیان نیا گوشت پیدا ہو۔ اور (ششم) یہ کہ اپنے جسم کو اطاعت کے رنج سے آشنا کرو جس طرح اُسے گناہ کی شیرینی سے لذت اندوز کیا ہے۔ اور پھر کہو “استغفر اللّٰہ”۔.. نہج البلاغہ ..اِس فرمان سے یہ مطلب ہرگز نہ لیا جائے کہ استغفار نہیں پڑھنا چاہیے یا بُلند آواز میں استغفار پڑھنے میں کوئی بُرائی ہے بلکہ یہ فرمان استغفار اور استغفار پڑھنے والے کا صحیح مقام پہچاننے اور اپنے قول میں صادق ہونے کا تقاضہ کرتا ہے۔ اِس فرمان میں اِس جانب اشارہ ہے کہ جب تک تُو نے دنیا سے (جو گناہ اور فریب کا جہان ہے) مُنہ ہی نہیں موڑا گزشتہ خطاؤں
کسی شخص نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے سامنے بُلند آواز سے”اَستغفر اللّٰہ”کہا تو آپ رض اللہ تعالی عنہ نے اُس سے فرمایا” کچھ معلوم بھی ہے کہ استغفار کیا ہے؟ ‘استغفار’ “بُلند منزلت لوگوں” کا مقام ہے اور یہ ایک ایسا لفظ ہے جو چھ باتوں پر حاوی ہے۔ ا(اوّل ) یہ کہ جو ہو چکا اُس پر نادم ہو۔ (دوم) یہ کہ ہمیشہ کے لیے اُس کے مرتکب نہ ہونے کا پکّا ارادہ کر چُکا ہو۔ (سوئم) یہ کہ مخلوق کے حقوق ادا کرنا یہاں تک کہ اللّٰہ کے حضور میں اِس اِس حالت میں پہنچو کہ تمہارا دامن پاک و صاف ہو اور تم پر کوئی مواخذہ نہ ہو۔ (چہارم) یہ کہ جو فرائض تم پر عائد کئے ہوئے تھے اور تم نے انہیں ضائع کر دیا تھا۔ اُنہیں اب پورے طور پر بجا لاؤ۔(پنجم) یہ کہ جو گوشت حرام سے نشوونما پاتا رہا ہے اُس کو غم و اندوہ سے پگھلاؤ یہاں تک کے کھال کو ہڈیوں سے ملا دو کہ پھر سے ان دونوں کے درمیان نیا گوشت پیدا ہو۔ اور (ششم) یہ کہ اپنے جسم کو اطاعت کے رنج سے آشنا کرو جس طرح اُسے گناہ کی شیرینی سے لذت اندوز کیا ہے۔ اور پھر کہو “استغفر اللّٰہ”۔.. نہج البلاغہ ..اِس فرمان سے یہ مطلب ہرگز نہ لیا جائے کہ استغفار نہیں پڑھنا چاہیے یا بُلند آواز میں استغفار پڑھنے میں کوئی بُرائی ہے بلکہ یہ فرمان استغفار اور استغفار پڑھنے والے کا صحیح مقام پہچاننے اور اپنے قول میں صادق ہونے کا تقاضہ کرتا ہے۔ اِس فرمان میں اِس جانب اشارہ ہے کہ جب تک تُو نے دنیا سے (جو گناہ اور فریب کا جہان ہے) مُنہ ہی نہیں موڑا گزشتہ خطاؤں
No comments:
Post a Comment